1,049

نہ خدا ہی ملا. از جاوید انور

تحریر۔ جاوید انور
لاہور۔ پاکستان
بینر۔ مایا مریم

نہ خُدا ہی ملا۔۔۔۔۔۔۔
اُسے دُنیا بھر کی فکر کھائے جا رہی تھی۔
۔کبھی کُچھ بُرا لگتا تو کبھی کُچھ ۔
کبھی ایسے غلط ہو جاتا اور کبھی ویسے۔
یہ پکڑتا تو وُہ ہاتھ سے نکلتا وُہ پکڑتا تو اس کا سرا
سرکتا۔
دماغ تھا کہ رُوئی دُھنکنے کی مشین۔
یادداشت تھی کہ کباڑ کوٹھڑی۔
“یہ بھلا کہاں کی شرافت ہے۔ نوجوان بن بیاہی لڑکیاں یُوں کُھلے عام ، عجیب و غریب کپڑے پہنے نوجوان لڑکوں کے ساتھ مٹکتی پھریں ۔
ایک زمانہ تھا کہ گھر کے مرد بھی کھنکارے بغیر زنانے میں قدم نہیں رکھ سکتے تھے کہ کسی بہُو بیٹی کا پلُو سرکا ہو سکتا ہے۔
میاں تک شادی کے بعد مرے جاتے کہ یار دوست پنڈ چھوڑیں اور حُجلہء عرُوسی میں جائیں تو ماہ تاباں باراول نظر نواز ہو۔
چلو جی وقت بدل گیا ہے ۔ زمانہ وُہ نہیں رہا لیکن اسکا یہ تو مطلب نہیں کہ مادر پدر آزاد ، شُتر بے مہار دندناتے پھریں۔ ”
زاہد کا یہ جلنا کُڑھنا بھی معمُول ہی تھا۔جب یہ کیفیت وارد ہوتی تو گردو پیش جو بھی کُچھ وقُوع پذیر ہوتا دیکھتا اُس کا خُون کھولا نے کو کافی ہوتا۔
لگتا زُمانہ چالیں ہی ایسی چل رہا تھا کہ نت نئی کلا جگتی، بس اُس کا خُون جلانے کو ۔
زاہد کھاتا پیتا بزنس مین تھا۔ درآمد برآمد کے دو دفاتر تھے۔ ایک کراچی کے مصرُوف ترین تجارتی علاقہ میں ، بندر گاہ کے بالکُل پاس اور دُوسرا لاہور کے جدید ترین علاقہ ڈیفنس میں۔
اگرچہ اُس نے سرگودھا کے ایک دُور افتادہ گاؤں میں آنکھ کھولی لیکن والد خُود بھی پُرانے زمانے کے گریجویٹ تھے اور اُسے بھی بہترین اداروں سے ماسٹرز ڈگری تک تعلیم دلوائی۔
گاؤں کا ماحول ویسا ہی تھا جیسے ہمارے دیہات ہوتے ہیں۔ خاندانی ذات برادری کا تعصب ۔ آبا و آجداد کے جھُوٹے سچے کارناموں پر فخرو مُباہات۔فرضی شرافت و نجابت کے فلک شگاف ڈنکے ۔
اُسے بھی ان سب ادویات کی بھر پُور خوراکیں پُڑے باندھ باندھ کر کھلائی گئیں۔
پھر مذہب کا اپنا رنگ خُوب جما ۔ گھر کے ساتھ بڑی مسجد تھی جو اُسی کے بزُرگوں کا عطیہ تھی۔ قاری صاحب ویسے ہی تھے جیسے عموماً ہوتے ہیں ۔ اُسے جہنم سے بڑا ڈر لگتا ۔ اتنا کہ دسمبر جنوری کی کُہر آلُود راتوں کو اُٹھ کر تہجد سے پہلے ہینڈ پمپ چلا کر سارے نمازیوں کے لئے زیر زمین قُدرتی نیم گرم پانی سے مسجد کی وُضو والی ٹینکی بھر دیتا ۔
اشکالات بُہر حال تنگ کرتے ۔ مثلا اُسے شعُوری طور پر یہ سوچ آتی کہ ،
” کل تراویح کی صف میں کھڑے میرے دائیں ہاتھ والے باریش حضرت جو مُفت کی افطاری زیادہ نگل کر گندی بدبُودار ڈکاریں، ہر رکعت میں تین چار کی رفتار سے ، مار رہے تھے اور میرا جی متلانے سے وُضو ٹُوٹنے لگا تھا تو مُجھے تو اس کا ثواب ضرُور ملے گا ، بھلا حضرت کو اس کا گُناہ ہو گا کہ نہیں”-
اس طرح کی کئی سوچیں ، گُفتنی نا گُفتنی ، اُس کے دماغ میں در آتیں اور وُہ کم عُمری کے باوجُود رعشہ زدہ بزُرگ کی طرح کپکپا جاتا۔
ایک دو بار قاری صاحب سے پُوچھا تو اُنہوں نے لاحول پڑھنے اور سکُوت کرنے کا مشورہ دیا، جس سے اُس نے واقعی افاقہ محسُوس کیا۔
گاؤں میں گُزارا بچپن اپنے سارے رنگوں ، سارے جذبوں، ساری خُوشبُوؤُں اور سارے نظاروں کے ساتھ اُس کے لا شعُور کا حصہ بن گیا۔
اوائل اپریل کی ٹھاٹھیں مارتی گہری سبز گندم کے سمندر کے بیچوں بیچ تنگ پکڈیڈیوں پر چلائے پُرانی بالٹی کے فالتُو کُنڈے سے رشید لوہار کے بنائےگول کڑا نُما رہڑے اور لکڑی کے ڈنڈے میں پھنسائی سوالیہ نشان کی شکل کی کُنڈی کے پیچھے فضُول لگائی میلوں لمبی دوڑیں ۔
رہڑے کی گُنگُناتی، جُھجھناتی نشہ آور کھنکتی آواز اُس کے عقبی ذھن کے تاریک تہہ خانے میں دبک تو گئی پر مکمل اور ابدی سکُوت میں کبھی نہ سوئی۔
برسات میں بھر پُور بارشوں کے بعد چوہوں کے بلوں میں پانی ڈال کر سانپ کے باہر نکلنے کا انتظار کرتے بچوں کے گروہ کا حصہ بننا اُس کے ذہن کے کباڑخا نے میں دب تو گیا ہو گا ، لیکن اپنے اثرات سے دستبردار کبھی نہ ہُوا۔
آہنی گول سریہ کے رہڑے کی آہنی کُنڈی کے ساتھ رگڑ کی سُنسناتی جھُنجھُناہٹ لگتا کہ اُس کے ساتھ قبر تک جائے گے۔
یہی سُنسُناہٹ ساتھ لئے وُہ یوُنیورسٹی پُہنچ گیا-
سارے تضادات ساتھ لے کر۔
دوغلی رُوح بھی اُس کے جوانی سے جھُلستے بدن کے پیچھے ہی پیچھے یُونیورسٹی ہاسٹل کی سنگلاخ ڈارمیٹری میں آ گھُسی۔
یُونیورسٹی کے سب سے روشن خیال ڈیپارٹمنٹ میں اچھے طالب علم ہونے کی مصدقہ شناخت نے اُس کا تُعارف انٹلکچُوئل طبقہ سے کروا دیا۔
مذہبی جماعت کی ذیلی تنظیم کے جبر تلے سسکتے یہ حساس ، نوجوان دُھواں دیتے ذہن ساری رات کارل مارکس اور سگمنڈ فرائیڈ سے نکلے بغیر گھسی ہُوئی جینز پہنے گندے فرش پر پھسکڑے مارے چرس کے دُھویں کی بوجھل فضاؤُں میں تیرتے کنفیُوشش اور کامُو سے ہوتے ہُوئے صُبح دم جارج ایلیٹ کے رُومانس میں جا سوتے۔
کُچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
آبدی سچ کی تلاش میں ٹامک ٹوئیاں مارتے یہ سیاہ پوش مدہوش ذہن مزید اُلجھتے اور بھٹکتے چُلے گئے۔
وُہ جس سچ کو چمکتی ڈلی کی شکل میں ڈُھونڈھ رھے تھے وُہ تو کہیں بکھرا تھا جیون کے ریگزاروں میں – اُلجھے خارزاروں میں ۔ ذروُں اور ٹُکڑیوں کی شکل میں ۔ نُوکیلے پتھروں اور جلتی ریت کے بیچ ۔
جہاں سے اُنہیں آبلہ پا ہو کر چُننا تھا، لہُو لہُو پاؤں گھسیٹتے۔ پلکوں پلکوں ۔
وُہ یُونیورسٹی سے نکلا تو کٹی پتنگ ہو گیا۔
ڈولتا پھرتا۔
ساتھی بکھر گئے ۔
کُچھ مُقابلے کا امتحان پاس کر کے چھوٹے چھوٹے افسر لگ گئے۔
ساری نفسیات اور فلسفہ بھُول کر تیسرے درجے کی حُکمرانی کے نشے میں غرق۔
جو فیل ہو گئے وُہ مُضافاتی کالجوں میں لیکچرر بن کر پروفیسر کہلوانے لگے۔
لڑکوں سے تو کبھی بات ہو جاتی ، جس میں معقُولیت اور ذہانت کا شائبہ تک نہ ہوتا ، لیکن لڑکیاں تو واقعی چڑیاں بن کر پتہ نہیں کن گھونسلوں میں جا گھُسیں کہ فون تک پر رابطہ ختم۔
چوہدری حُکم داد نے کہا،
“بیٹا سرگودھا آ جا اور ذمیندارہ سنبھال”
لیکن بیٹا اب خاندانی نجابت کی بڑوں اور مولویوں کی سُریلی دھمکیوں سے بُہت آگے نکل چُکا تھا۔
باپ نے کینو کے باغات سے جمع رقم سے بھری تجوری کا ایک کونا خالی کیا تو بہترین کالونی میں ایک کنال کا گھر خرید دیا۔
بڑے بھائی کے ایم۔ این ۔ اے ہونے کا یہ فائدہ ہُوا کہ سب مدارج طے ہو کر چھ مہینے میں امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس سیٹ ہو گیا ۔
تجربہ کار مینیجر کے سپُرد کرنے پر یہ مُفید کاروبار آکاس بیل کی طرح چھوٹے کاروباروں کا رس چُوس کر پھیلتا ہی چلا گیا ۔
اب اس کے پاس کرنے کو کُچھ نہ رہ گیا سوائے مزید بھٹکنے کے۔
زندگی کی گاڑی ایک ہی پہئے پر چلانے کے نُقصانات تو ہونگے ہی ، پر فائدے بھی بُہت ہیں۔
جب مزے ہُوں تو بچپن کے لوہے کے کڑے والے رہڑے اور سوالیہ نشان والی کُنڈی سے رگڑ کی جھُنجھُناتی سُنسُناہٹ شائد ہی کبھی زندہ ہو کر ذہن کے تاریک گوشوں سے گُونجے۔
” تُمہیں خُدا یاد آئے گا جب تُم کمزور ہو گے”
تسنیم ، اُسکی بُرقعہ پوش ہم جماعت جو شاہدرہ سے اومنی بس سے یُونیورسٹی آتی تھی اُسے کہا کرتی۔
جب اُس کی طبیعت بُہت خراب ہُوئی اور آنکھوں کے آگے دھنک اکثر ناچنے لگی تو تسنیم کی بات اُسے بُہت یاد آئی اور سچ لگنے لگی۔
پھر وُہ دین کی طرف لوٹا۔ علاج مُعالجہ میں برین سکین اور دیگر ٹیسٹ تجویز ہُوئے تو دُعاؤں کے لئے لاہور کے مضافات میں اللہ والوں کی بستی راس آئی۔
وُہ دُنیا کو بھُول کر ہفتوں اُدھر پڑا رہتا۔
ایک گرُوپ سے دُوسرے میں لُڑھکتا اور ایمان یقین کی باتیں سُنتا۔
ضروریات زندگی بُہت محدُود ہو گئیں۔ تقوی اور تلقین سے سکُون ملتا۔ اپنا ذاتی سامان پُشت پر لادے ریلوے اسٹیشنوں کے پلیٹ فارموں اور ویگنوں، بسوں کے اڈوں پر دھکے کھانے سے راحت قلبی نصیب ہوتی۔
ایک عرصہ میں دُعاؤں اور دواؤں سے طبیعت بحال ہُوئی تو پھر زندگی کی رنگینیاں آہستہ آہستہ حقیقت بن کر صدائیں دینے لگیں۔
کُچھ دنوں سے وُہ بُہت حساس ہو گیا تھا۔ کبھی تو دینی فرائض یاد آجاتے تو نہ گھر یاد آتا اور نہ دفتر اور پھر دُوسری پھر کی گھُومتی تو قریہ قریہ کُوچہ کُوچہ وُہ کُچھ کر گُزرتا کہ بعد ازاں یاد بھی کرنے سے کان لال ہو ہو جاتے۔
ابھی بھی اُس پر آصلاح مُعاشرہ کا بھُوت سوار تھا جو وُہ شور مچاتا پھر رہا تھا۔
اچانک اُسے یاد آیا کہ اُسے دفتر جانا ہے جہاں نئی سیکریٹری مُنتظر ہے کہ کام لمبا ہے اور دیر تک بیٹھنا ہوگا۔
شام گہری ہُوئی تو کام ختم ہُوا۔
عشائیہ کے لئے دونوں جب پانچ ستارہ ہوٹل کی لابی میں داخل ہُوئے تو مُنتظم اعلی نے جھُک کر سلام کیا اور ساتھ چلتا عشائیہ کی اُس میز تک لایا جہاں سے نہانے کے تالاب کا خُوبصُورت منظر واضح ترین نظر آتا تھا۔
فلور مینیجر کو ضرُوری تاکید کر کے مُنتظم اعلی اُس سوئٹ کےلوازمات کی فکر میں لگا جو ہر ضرُوری دفتری کام کے بعد زاہد کی جائے پناہ تھا۔

اس تحریر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں